حیرت انگیز اہرامات: قدیم مصری تعمیرات کا راز

 


تعارف

ہیلو، دوستو! آج سے تقریباً 4,500 سال پہلے مصر میں ایک ایسا عجوبہ تعمیر کیا گیا تھا جو آج بھی دنیا کو حیران کر دیتا ہے۔

عظیم اہرامِ جیزہ

یہ 147 میٹر اونچا تھا اور 4,000 سال تک دنیا کا سب سے بلند ڈھانچہ رہا۔ یہ حیرت انگیز اہرام 6 ملین ٹن وزنی پتھروں سے تعمیر کیا گیا، جو جدید برج خلیفہ (500,000 ٹن) سے کئی گنا زیادہ بھاری ہے۔

اہرام کیسے بنائے گئے؟

یہ ایک حیران کن سوال ہے کیونکہ قدیم مصریوں کے پاس کرین، بلڈوزر یا جدید ٹیکنالوجی نہیں تھی۔ یہاں تک کہ ان کے پاس پہیے تک نہیں تھے! پھر بھی، انہوں نے ایسی شاندار عمارت کھڑی کر دی جو آج بھی قائم ہے۔

اہرامِ جیزہ کی تاریخ

فرعون خوفو اور ان کی حکمرانی

یہ اہرام 2560 قبل مسیح میں فرعون خوفو کے حکم پر تعمیر کیا گیا۔ فرعون قدیم مصری بادشاہوں کو کہا جاتا تھا۔ خوفو چوتھے شاہی خاندان کا دوسرا بادشاہ تھا۔ ان کی حکمرانی کے دورانیے پر اختلاف پایا جاتا ہے، کچھ مؤرخین 23 سال کہتے ہیں، کچھ 34 سال، اور کچھ 60 سال سے زیادہ کا اندازہ لگاتے ہیں۔

اہرام کی ساخت اور مقام

یہ اہرام دریائے نیل کے مغربی کنارے پر واقع ہے اور اس کے ساتھ دو اور اہرام بھی موجود ہیں

  • پرامڈ آف خفرے (خوفو کے بیٹے کا اہرام)

  • پرامڈ آف منکاورے (خفرے کے بیٹے کا اہرام)

ان کے ساتھ ساتھ، عظیم ابوالہول (Sphinx)، کئی قبریں اور دیگر چھوٹے اہرام بھی موجود ہیں۔ مجموعی طور پر 118 اہرامات دریافت ہو چکے ہیں، مگر بیشتر خراب ہو چکے ہیں۔

اہرام کیوں بنائے گئے؟

مصریوں کا آخرت پر عقیدہ

قدیم مصریوں کا عقیدہ تھا کہ موت کے بعد بھی زندگی جاری رہتی ہے۔ مرنے کے بعد روح آخرت میں فیصلہ کے لیے جاتی ہے اور اچھے اعمال والے ہمیشہ کے لیے زندہ رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے فرعون اپنی زندگی میں ہی اپنے لیے شاندار مقبرے (اہرام) بنواتے تھے۔

ممی بنانے کا عمل

فرعون کی لاش ممیفائی کر کے پتھر یا لکڑی کے تابوت میں رکھی جاتی تھی۔ ساتھ میں خزانے، زیورات، کپڑے، کھانے پینے کا سامان اور دیگر اشیاء دفن کی جاتی تھیں تاکہ وہ آخرت میں استعمال ہو سکیں۔

اہرام سے جُڑی عجیب نظریات

کیا اہرام بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ تھے؟

کچھ لوگ مانتے ہیں کہ قدیم مصری بجلی بنانے کی ٹیکنالوجی رکھتے تھے اور اہرام پاور پلانٹ کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ اس نظریے کے ثبوت میں بعض دیواروں پر کندہ تصاویر دکھائی جاتی ہیں، جن میں ایک مشعل جیسی چیز بنی ہوئی ہے۔ مگر مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ صرف مصری دیومالائی کہانیاں ہیں۔

کیا اہرام اناج کے گودام تھے؟

1998 میں امریکی سیاستدان بین کارسن نے کہا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اناج ذخیرہ کرنے کے لیے اہرام بنوائے، مگر تمام مؤرخین اس نظریے کو غلط سمجھتے ہیں۔

اہرام کی تعمیر کیسے ہوئی؟

کیا غلاموں نے اہرام بنائے؟

ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ غلاموں نے اہرام تعمیر کیے۔ درحقیقت، یہ کام ماہر مزدوروں نے کیا تھا، جو بہترین کھانے اور سہولیات حاصل کرتے تھے۔ ان کے لیے خصوصی بستیاں بسائی گئی تھیں جہاں وہ رہتے تھے۔


پتھروں کو کیسے تراشا گیا؟

  1. تانبے کے اوزار استعمال کیے گئے۔

  2. ڈولیرائٹ پتھر کی مدد سے سخت چٹانیں توڑی گئیں۔

  3. لکڑی کی گیلی کھونٹیاں چٹانوں میں ڈال کر، پانی پلایا جاتا، جس سے چٹان ٹوٹ جاتی۔

پتھروں کو کیسے کھینچا گیا؟

  1. دریا میں لکڑی کی کشتیوں پر لاد کر پتھر کھینچے گئے۔

  2. ریتلی زمین کو گیلا کر کے مٹی پر پھسلواں سطح بنائی گئی، جس سے وزنی چیزیں کھینچنا آسان ہو گیا۔

پتھروں کو اوپر کیسے لے جایا گیا؟

  1. لمبی ڈھلوانیں (رامپس) بنائی گئیں، جو اہرام کے گرد گھومتی تھیں۔

  2. رسی اور لکڑی کے ستونوں کی مدد سے پتھر کھینچے جاتے تھے۔

  3. لیور سسٹم (Shadoof) بھی استعمال کیا جا سکتا تھا۔

کیا یہ ممکن تھا؟

اگر 20,000 مزدور کام کر رہے ہوں، تو ہر 3 منٹ میں ایک پتھر لگانا ضروری ہوتا، جو کافی مشکل لگتا ہے۔ اسی لیے، یہ راز آج بھی ایک معمہ ہے۔

اہرام کی حیرت انگیز ڈیزائننگ

اہرام کے رخ درست سمت میں کیوں ہیں؟

  1. قدیم مصری ستاروں کی مدد سے سمت کا تعین کرتے تھے۔

  2. Autumn Equinox کے دوران سورج کی روشنی سے مشرق و مغرب کی شناخت کی جاتی تھی۔

  3. اورین بیلٹ (Orion's Belt) تھیوری بھی پیش کی گئی، مگر یہ مکمل طور پر ثابت نہیں ہو سکی۔


کیا خلائی مخلوق نے اہرام بنائے؟

بعض لوگ مانتے ہیں کہ خلائی مخلوق (Aliens) نے اہرام بنائے کیونکہ اتنی درستگی کے ساتھ بغیر جدید آلات کے تعمیر ممکن نہیں تھی۔ مگر سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ انسانی مہارت کا نتیجہ تھا۔

اختتامیہ

آج بھی، عظیم اہرامِ جیزہ دنیا کے سب سے بڑے رازوں میں سے ایک ہے۔ کچھ سوالات کے جوابات مل چکے ہیں، مگر ابھی بھی بہت کچھ معلوم کرنا باقی ہے۔ امید ہے کہ مستقبل میں ماہرین آثار قدیمہ اور تاریخ دان مزید شواہد دریافت کریں گے تاکہ ہم اس حیرت انگیز تعمیر کی مکمل کہانی جان سکیں۔

شکریہ!

Comments